حضرت خواجہ محمد باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ
- Admin
- Sep 28, 2021
حشر تک باقی رہے دل میں محبت پیر کی
حضرتِ خواجہ باقی باللہ ؒشاہِ بقا کے واسطے
آپؒ ہندوستان میں نقشبندی خاندان کے پیرومرشد مانے جاتے ہیں۔آپ ؒکی ذات نہ ہوتی تو طریقہ نقشبندیہ ہندوستان میں جاری نہ ہوتا۔آپؒ کے ظاہری اور باطنی کمالات، زہد وتقو ی اور اتباع رسول آفتاب کی طرح روشن ہیں۔ آپؒ حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی مجدد الف ثانی رحمۃاللہ علیہ کے پیرو مرشد ہیں اور سلسلہ نقشبندیہ ہندوستان کے بانی بھی ہیں۔
حضرت خواجہ محمد باقی عرف باقی باللہ قدس سرہ ٗ کی ولادت باسعادت 5 ذی الحج 971 ہجری بمطابق 15 جولائی 1564 ء کو کابل (افغانستان) میں ہوئی جہاں آپؒ کے والد گرامی قاضی عبدالسلام رحمۃاللہ علیہ ایک عرصے سے اپنے قبائل سمیت کونت پذیر تھے۔قاضی صاحب صاحب ِ وجد و حال ،اربابِ ٖفضل وسخااور صاحب ِ کشف و کرامت میں سے تھے۔ حضرت خواجہ محمد باقی عرف باقی باللہ قدس سرہ ٗ میں بچپن ہی سے بزرگی و ہمت اور تجرید و تفرید کے آثار ظاہر تھے۔ آپ ؒکےمعمولات یہ تھے! کم بولنا ،کم سونا اور کم کھانا۔
آپؒ کے نانا جان کا سلسلہ نسب حضرت شیخ عمر یاغستانیؒ تک پہنچتا ہے جو حضرت خواجہ عبید اللہ احرار ؒکے نانا تھے۔ آپؒ کی نانی سادات سے تھیں۔ بعض مؤرخین نے آپؒ کو صحیح النسب سید لکھا ہے۔ جبکہ آپؒ اصلاً ترک تھے۔
خواجہ باقی باللہؒ بن قاضی عبد السلامؒ بن قاضی عبد اللہ ؒبن قاضی اجرؒ بن قاضی حسین ؒبن قاضی حسؒن بن محؒمد بن احؒمد بن محمود ؒبن عبد اللہؒ بن علی اصغرؒ بن جعفر ذکی خلیلؒ بن علی نقی ؒبن محمد تقیؒ بن علی رضا ؒبن موسی کاظم ؒبن امام جعفر صادق ؒبن امام محمد باقر ؒبن امام زین العابدین ؒبن امام حسین علیہ السلام بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ۔ تمام کتب تصوف میں آپ ؒکو فاروقی النسب لکھا ہے۔
آپؒ نے آٹھ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ اُس دور کے کابل کے مشہور عالمِ دین محمد صادق حلوائیؒ سے تلمذ اختیار کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں علم و عمل کے آفتاب بن کر چمکنے لگے اور اپنے زمانے کے اہلِ علم میں شہرتِ دوام حاصل کر لی۔ سمرقند میں فقہ، حدیث، تفسیر اور دوسرے دینی علوم کی تکمیل کی۔ بچپن سے آثار تجرید و تفرید اور علاماتِ فقر و درویشی آپ کی پیشانی سے عیاں تھیں۔
ایک مجذوب کی نظر کرم سے کتابوں سے دل اچاٹ ہو گیا اور آپؒ کسی مرشد کامل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آخر میں امیر عبد اللہ بلخیؒ کی خدمت میں پہنچے۔ اب طبیعت کو استقامت ہوئی اور مدارج روحانی میں ترقی ہونے کے بعد پیر بابا بھائی دلی کشمیریؒ کے حضور پہنچے اور فیض حاصل کیا۔ اس کے بعد پیر کامل کی تلاش میں دہلی وارد ہوئے اور حضرت شیخ عبد العزیزؒ کی خانقاہ میں ان کے صاحبزادے شیخ قطب العالم ؒکے پاس رہ کر یادِ حق میں مشغول ہو گئے۔ پھر اشارہ غیبی پاکر بخارا پہنچے اور حضرت خواجہ امکنگی ؒ سےنقشبندی سلسلے کی تعلیم حاصل کی۔ حضرت خواجہ محمد امکنگی ؒ اور حضرت شاہ نقشبند بخاری ؒکی روحانیت سے بلا واسطہ بطور اویسیت فیض یا ب تھے۔
حضرت خواجہ محمد امکنگی ؒنے اشارہ غیبی پاکر آپؒ کو ہندوستان کی طرف ہجرت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
تمہارے وجود سے طریقہ نقشبندیہ ہندوستان میں رونق عظیم اور شہرت فخیم حاصل کرے گااور وہاں کے تشنگان علم وعرفاں کا جام تجھ سے سیراب ہوگا۔
چنانچہ آپؒ کے حکم پر ترکستان سے لاہور ہوتے ہوئے ہندوستان کے مرکزی شہر دہلی تشریف لائے اور دریائے جمنا کے کنارے قلعہ فیروز آباد میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپؒ کی تشریف آوری سے پانچ چھ سال کے اندر اندر روحانی حلقوں میں انقلاب برپا ہو گیا۔ علماء و مشائخ اور عامۃ المسلمین کے علاوہ اُمراء سلطنت بھی آپ کے حلقہ بیعت میں شامل ہونے لگے۔ چنانچہ نواب مرتضی خان فرید بخاری، عبدالرحیم خان خاناں، مرزا قلیج خان اور صدر جہاں وغیرہم بھی آپ ؒکے نیاز مندوں میں شامل ہونے لگے۔ آپ ؒنے دورِ اکبری کے منفی اثرات کو زائل کرنے کے لیے ایک خاص حکمت عملی کے تحت بشمول انہی راسخ العقیدہ امرا و علما و صوفیا کی ایک جماعت تیار کی جن میں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒبھی شامل تھے۔ ان حضرات نے علمائے سوء کے منفی کردار کے اثرات زائل کرنے کے لیے اکبر اعظم کے بعد نور الدین جہانگیر کی جانشینی پر اس شرط کے ساتھ حمایت کی کہ وہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں ان کا حامی و موئید ہو گا۔ اکبر اعظم کے دربار سے وابستہ بہت سے امرا ءبھی آپؒ کے متعقد تھے۔ آپؒ نے
امرا ءکے طبقے کی اصلاح کی طرف توجہ دی ۔یہ آپؒ ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اکبر کے عہد میں جو لامذہبیت پیدا ہو رہی تھی اس کا خاطر خواہ سدباب ہوااور طبقہ امرا ءمیں مذہب سے وہ انس پیدا ہو گیا جس کے سامنے اکبر کے خیالات فروغ نہ پاسکے۔
آپ ؒکی نظر کیمیا، توجہ اکسیر اور دعا مستجاب تھی اور آپ ؒسے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا۔ آپ بہت کم گو، کم خور اور کم خواب تھے۔
حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت صاحب آپ کا یہ نام کچھ عجیب سا ہے اس کا کیا مطلب بنتا ہے
حضرت خواجہ باقی باللہ ؒنے فرمایا کہ جب میرا وصال ہو اُس وقت آواز لگانا کہ حضرت صاحب کا نماز جنازہ وہ شخص پڑھاۓ جس کی کبھی نماز قضا نہ ہوئی ہو۔اگر کوئی آگے آجاۓ تو ٹھیک ہے نہیں تو پھر کچھ انتظار کرنا ایک شخص نقاب میں آۓ گا اور نماز جنازہ جب پڑھا دے اور جانے لگے تو اُس سے یہ سوال پوچھناآپ کو جواب مل جاۓ گا ۔
کچھ ماہ بعد آپؒ کا جب وصال ہوا تو لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا نماز جنازہ کا جب ٹائم آیا تو اُس شخص نے آواز دی کہ وہ شخص نماز جنازہ پڑھاۓ جس کی کبھی ایک بھی نماز قضا نہ ہوئی ہو۔لیکن کسی میں اتنی ہمت کہاں کہ نماز جنازہ پڑھاۓ کیونکہ نمازیں تو ہر ایک کی قضا ہوجاتی ہیں ۔ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار چہرے پر نقاب کیا ہوا آر رہا ہے ۔جب وہ آگیا اور نماز جنازہ پڑھا کر واپس ہونے لگا تو اُسی شخص نے کہا کہ آپ کون ہو؟
میرا ایک سوال تھا خواجہ باقی باللہ ؒسے کہ آپؒ کےنام کا کیا مطلب ہے؟ آپؒ کا نام کچھ عجب سا ہے تو خواجہ صاحب ؒنے کہا کہ جو میرا جنازہ پڑھاۓ گا اُس یہ سوال پوچھنا۔اب آپ بتائیے۔ جب اُس شخص نے جس نے جنازہ پڑھایا تھا اُس نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا تو وہ شخص جس نے سوال کیا تھا کہ خواجہ باقی باللہؒ خود ہیں آپ نے ضودہی اپنا جنازہ پڑھایا ۔حضرت خواجہ باقی باللہؒ نے فرمایا وہ جو تم وجود دیکھ رہے ہو وہ فانی ہے۔ یہ باقی ہے ہم نے اپنے آپ کو اللہ کی ذات میں فنا کر دیا اب یہ جو آپ کے سامنے ہے باقی ہے۔ فرمایا :اللہ والے تو سب زندہ ہوتے ہے بس آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ یہ سُن کر اُس شخص پر غشی طاری ہوگئی اور وہ وہی بے ہوش ہوگیا۔
حضرت خواجہ باقی اللہ رحمۃ اللہ علیہ وہاں سے پلک جھپکنے سے پہلے ہی غائب ہوگئے۔
ایک مرتبہ خواجہ صاحبؒ کے پاس کچھ مہمان آئے ،اس وقت خانقاہ میں کچھ کھانے کے لیے موجود نہ تھا ، یہ جان کر خواجہ صاحبؒ سخت متفکر ہوئے ۔ایک نانِ بائی بھی اس وقت وہاں موجود تھا ، اس نے فوراً اپنی دکان سے کئی اقسام کا کھانا منگوایا اور حضرت خواجہ باقی ؒباللہ کے مہمانوں کی خدمت میں پیش کر دیا۔ خواجہ صاحب ؒبہت خوش ہوئے اور مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد نان بائی سے پوچھا بولو! اس خدمت کے صلے میں ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں؟ جو تم مانگو گے ہم دیں گے ۔ نان بائی نے کہا حضرت! مجھے اپنے جیسا خواجہ صاحبؒ نے بہت دیرٹالا ، لاکھ سمجھایا لیکن نان بائی اسی بات پر بضد رہا کہ مجھے اپنے جیسا بنادیجیے۔
چو نکہ خواجہ صاحب ؒوعدہ کر چکے تھے اس لیے اس نان بائی کو حجرے میں لے گئے اور تصوف کی ایک نگاہ اُس پر ڈالی جب دونوں حجرے سے برآمد ہوئے تو حاضرین کے لیے پہچاننا دشوار تھاکہ خواجہ صاحب کون ہیں اور نانِ بائی کون؟ دونوں چال ڈال اور شکل وصورت سے ایک جیسے ہوگئے تھے لیکن نان بائی چند روز بعد انتقال کر گیا اس لیے کہ دفعتاً اس کا شعور انوارات کا بوجھ سنبھال نہ سکا تھا۔
ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نماز ادا کرنے مسجد سے باہر نکلنے لگے تو آپؒ نے دیکھا کہ نمازیوں کے جوتے کچھ دائیں طرف پڑے ہیں بقیہ بائیں طرف پڑے ہیں۔ جب آپ ؒاسکی طرف متوجہ ہوئے تو آپ کو کشف ہوا کہ دائیں طرف والے اصحاب الیمین ہیں اور بائیں طرف والے اصحاب الشمال ہیں۔ آپ ؒنے لوگوں سے پوچھا کہ جوتوں کو الگ الگ کس نے رکھا؟
بتایا گیا کہ آپ ؒکے صاحبزادہ خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ کھیل رہے تھے۔
آپؒ نے حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں خط لکھ کر اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔
حضرت خواجہ باقی باللہ ؒنے بچوں کو اپنے پاس دہلی بلوایا اور انہیں بازار سے منگوا کر کھانا کھلایا۔ اس کھانے کی ظلمت کی وجہ سے صاحبزادگان کا کشف ختم ہو گیا۔
سوچنا چاہئے کہ اگر آج سے پانچ سو سال پہلے کا بازار کا پکا کھانا اتنی کثافت رکھتا تھا تو آج کل کے کھانوں کا کیا حال ہو گا؟؟
لوگ چکن تکہ، چکن کباب تو مزے لے لے کر کھاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ مرغ کو صحیح طریقہ سے حلال بھی کیا گیا تھا یا نہیں۔
دہی بھلے اور چاٹ کھانے کی عادت ہوتی ہے جس سے دل میں ظلمت آتی ہے۔ اگر بازار میں کسی ایسے آدمی کی دکان ہو یا ہوٹل ہو جو نمازی ہو ،طہارت اور حرام و حلال کا خیال رکھنے والا ہو تو ایسی جگہ کے پکے ہوئے کھانے کو کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر عام مشاہدہ یہی ہے کہ کام کرنے والے بے نمازی بھی ہوتے ہیں۔ طہارت کا بھی خیال نہیں رکھتے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو)
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو انسان غیر پاکیزہ چیزیں کھائے گا وہ اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جائے گا۔
غذا میں اول قدم پر اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ رزق حلال سے حاصل کی گئی ہو۔ دوسرے قدم پر وہ چیز شرعاً حلال ہو۔
مثلاً ایک آدمی حلال مال سے ایسی آئس کریم خریدتا ہے جس میں حرام چیزوں کی ملاوٹ ہے تو اسکے کھانے سے دل میں ظلمت پیدا ہو گی۔ تیسرے قدم پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس غذا کو بناتے وقت طہارت و پاکیزگی کا خیال رکھا گیا ہو۔بعض جگہوں پر لوگ سموسے وغیرہ بناتے ہیں مگر ایک ہی پانی میں ساری پلیٹیں جمع کر دیتے ہیں۔ پھر ایک ہی کپڑے سے انہیں صاف کر کے رکھ دیتے ہیں۔ پلیٹ دیکھنے میں صاف تو ہو جاتی ہے مگر پاک نہیں ہوتی۔
اسی لئے مشائیخ حضرات بازار کی بنی ہوئی کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں۔
اسی لیئے حضرت سلطان باہو رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں۔
مُرشد مَینوں حَج مَکے دا رَحمت دا دروازہ ہُو
کَراں طواف دوالے قبلہ نِت ہووے حَج تازہ ہُو
کُن فَیکُون جَدودا سُنیا مُرشد دا آوازہ ہُو
مُرشد سَدا حَیاتی باہُو اوہو خِضر خواجہ ہُو
ترجمہ و تشریح:
مرشد کی اہمیت درویش کے لئے اس قدر ہے کہ اگر وہ مُبتدی ہو تو اسکی اجازت کے بغیر اسے چھوڑ کر حَج پر جانا اس کے لئے غیر مفید ہوگا۔ حج تو بعد میں بھی ہو سکتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ مُرشد کی صحبت بھی پِھر میسر ہو۔
حضرت امامِ رَبّانی مُجدد الف ثانی شیخ احمد سَرہندی رحمۃ اللہ علیہ اپنے طریقہ میں کامل تھے۔جب حج کی نیت سے گھر سے روانہ ہوئے ۔
دِلّی پہنچے تو کابل سے آئے ہوئے طریقہ نقشبندیہ کے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے مُلاقات ہو گئی ان کی صحبت کو اس قدر مفید پایا کہ وہیں بیٹھ رہے حج کے لئے تشریف نہیں لے گئے۔
یہی حقیقت ہے کہ درویش مُرشد کے حضور روحانی تربیت میں استقامت اختیار کرنے کا عہد کرتا ہے تو اس کے لئے رحمت کا دروازہ کُھل جاتا ہے۔
اپنی ذات کی گواہی ہمیشہ معتبر ہوتی ہے چنانچہ درویش رحمت کا حیران کُن مُظاہرہ خود اپنی ذات کے اندر دیکھتے ہیں مُرشد کی توجہ سے ان کی روحانی قوتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔
مُرشد سنار کی طرح ہے جو سونے کی ڈَلی سے خوبصورت زیور بنا دیتا ہے وہ ایک سنگ تراش ہے جو پتھر سے بھی حسین صورت تراش دیتا ہے۔
کامل پیر محمد بخشا لعل بنان پتھر دا
اسی خاطر درویش بار بار مُرشد کی مَجلس میں آتے ہیں اور اسکی صحبت سے مُستفیض ہوتے ہیں۔
اپنے اندر اِس قسم کی تبدیلی محسوس کرتے ہیں کہ گویا ان کا حج ہو گیا۔
ڈاکٹر نذیر احمد مرحوم نے پہلے دو مصرعوں کو مضمون کے لحاظ سے روایتی کہا ہے۔ یہ تنقید کا نہایت غیر ادبی انداز ہے۔
شاعری میں مضمون اکثر روایتی ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ان مضامین کو شعر میں کیسے ڈھالا گیا اور قاری پر ان کے تاثّر کی کیا کیفیت ہے۔؟ اگر یہ روایتی مضمون شعر میں ڈھل کر قاری کو ایک تازہ سچائی کی تاثیر سے ہمکنار کرتا ہے تو شاعر کامیاب رہا۔
مَذکورہ دو مصرعوں کو جب ایک عام قاری پڑھتا ہے تو ان سیدھے سادے الفاظ میں بھی صداقت اپنی تمام تر تازگی کے ساتھ دل میں جا بیٹھتی ہے۔
یہ سلطان صاحب کا اعجازِ کلام ہے۔
کچھ لوگوں کو یہ بات بھی عجیب معلوم ہو گی مگر حقیقت یہی ہے کہ ہر مُرید بالآخراپنے مُرشد کے پاس جا پہنچتا ہے۔ اور اگر وہ واقعی با صلاحیت مُرید ہے تو محسُوس کرتا ہے گویا شروع سے اسکے لئے یہی مقدر تھا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ درویشوں کے نزدیک ایک بھید تو پیدائش ہے۔
کوئی کہاں پیدا ہوا اور کیوں پیدا ہوا اس میں حِکمت ضرور ہے مگر یہ حِکمت اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے۔ پِھر دوسرا بھید اُستاد اور مرشد کے مدرسے اور مجلس تک رسائی ہے۔ یہ بھی گویا اللہ کے ذِمہ ہے کہ کسی سعید رُوح کو اس مقام تک پہنچا دے۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کئی درویش جب طلبِ صادق کے ساتھ پہلی بار اتفاقاً اپنے مُرشد کے ہاں جا نِکلتے ہیں تو وہ وَجدانی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ صحیح جگہ پر پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت ان کی روح خوشی سے جھوم اُٹھتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ سب کچھ اَزل سے جب روحیں خلق کی گئیں تو یہ اللہ کے ہاں طے شُدہ اَمر تھا۔بنا بریں درویش کے لئے شروع سے اسکی پیدائش سے کہیں پہلے اسی دروازہ پر جانا مقدر ہو چکا ہوتا ہے۔
درویش کا دِل ہمیشہ مُرشد کے لئے شکرگزاری کے جذبات سے مملُو رہتا ہے۔
وہی اس کا آقا ہے وہی اس کا رہبر ہے " اوہو خضر تے خواجہ ہُو "
حَج کی تشبیہ سے تقدیس کا تاثر بھی اُبھرتا ہے جو مُرشد کے قرب میں مرید نہ صرف واقعتاً محسوس کرتا ہے بلکہ اس سے بقدرِ ظرف پورا پورا حِصّہ لیتا ہے۔
حضرت خواجہ باقی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے دو صاحبزادے تھے۔
خواجہ عبیداللہ کلاںؒ
خواجہ عبداللہ خوردؒ
1008 ہجری میں حضرت مجدد الف ثانی ؒحضرت خواجہ باقی باللہ ؒسے بیعت ہو کر خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے ۔جن سے بالخصوص پاک و ہند اور بالعموم پوری دنیا میں سلسلہ نقشبندیہ کی اشاعتِ عام ہوئی۔ آپ ؒکے مشہور خلفاء کے نام درج ذیل ہیں:
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃاللہ علیہ
حضرت شیخ تاج الدین سنبھلی رحمۃاللہ علیہ
حضرت خواجہ حسام الدین رحمۃاللہ علیہ
مکتوبات امام ربانی میں آپؒ کے نام حضرت مجدد الف ثانی ؒکے لکھے ہوئے 20 مکتوبات ہیں جو دفتر اول یعنی پہلی جلد میں ادباً و احتراماً شروع میں رکھے گئے ہیں۔ ان میں آپؒ کے ذاتی احوال کے علاوہ علوم و معارف کے بے شمار جوہر گرانمایہ شامل ہیں۔
شیخ محمد صادق کابلی ؒشیخ احمد سرہندی المعروف حضرت مجدد الف ثانی ؒکے خلیفہ خاص تھے۔
یوسف سمرقندیؒ حضرت خواجہ محمد باقی باللہ ؒکے مرید خاص تھے۔ انہوں نے ایک جماعت شیخ احمد سرہندیؒ کے پاس بھیجی جس میں آپؒ بھی تھے۔ آپؒ نے سلوک کی منازل حضرت مجدد الف ثانی ؒکے زیر سایہ طے کی۔ آپ ؒکا وصال حضرت مجدد الف ثانی ؒکے قدموں میں سرہند شریف میں ہوا۔
خواجہ عبید اللہ کلاںؒ حضرت خواجہ محمد باقی باللہؒ کے بڑے فرزندے ہیں۔ آپ ؒدو سال کے تھے جب والد بزرگوار کا وصال ہو گیا۔ آپؒ کی تعلیم و تربیت حضرت مجدد الف ثانی ؒنے کی۔ آپؒ ان کے خلیفہ خاص تھے۔
بروز ہفتہ 25 جمادی الثانی 1012ہجری بمطابق 29 نومبر 1603ء کو بعد نماز عصر ذکر اسم ذات کرتے ہوئے وفات پائی۔
'نقشبندِ وقت' اور 'بحرِ معرفت بود' سے تاریخ وفات نکلتی ہے۔حضرت خواجہ باقی باللہؒ کا مزار دہلی میں فیروز شاہ قبرستان میں صحنِ مسجد کے متصل واقع ہے۔